تحریر: عماد ظفر

Image via The Nation
بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں. ایک معصوم سا وجود رکھنے والے پھولوں کی مانند جو اپنے وجود کی خوشبو سے چار سو مسرتیں اور مسکانیں بکھیر دیتے ہیں. انسانی زندگی کا سب سے حسین دور بچپن کا ہوتا ہے اور یہ دور انسان کی شخصیت کی بنیادہیں بھی بناتا ہے.بدقسمتی کہیے یا اخلاقی دیوالیہ پن یا پھر شاید انسانیت کا جنازہ کہ اس معاشرے میں بچے بھی جنسی ہوس اور تشدد سے محفوظ نہیں.ابھی آرمی پبلک سکول کے بچوں کی شہادت کے زخم بھرنے بھی نہیں پائے تھے کہ ملکی تاریخ کا ایک بدترین جنسی ہوس کا سانحہ منظر عام پر آ گیا.قصور کے نزدیک اس سانحے میں تازہ ترین تحقیقات کے مطابق 280 سے زائد بچوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا جبکہ تقریبا چار سو کے لگ بھگ جنسی تشدد کی فلمیں بھی برآمد ہوہیں. یہ وڈیوز پچاس پچاس روپے کے عوض اسی معاشرے میں فروخت کی جاتی رہیں ان معصوم کلیوں کو اور انکے خاندانوں کو ایک طویل عرصے تک بلیک میل کیا جاتا رہا. جب تنگ آ کر متاثرہ خاندانوں نے پولیس اور مقامی سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ کے خلاف مظاہرے شروع کیے تو انہیں طاقت کے زور سے خاموش کروانے کی کوشش بھی کی گئی۔ اس مکروہ فعل کے پیچھے چند طاقتور لوگوں کا ہاتھ تھا اور پنجاب کی حکمران جماعت کے ایک مقامی ممبر اسمبلی کا دست شفقت بھی ان افراد کے سر پر تھا جو کہ بین القوامی پورن سایٹس پر بھی بچوں سے جنسی زیادتی کی وڈیوز فروخت کرتے رہے.
اسکینڈل کے منظر عام پر آتے ہی ایک بے حسی کی روایتی فلم پھر چلنی شروع ہو گئی. میڈیا کو سلاٹ کیلیے بریکنگ نیوز اور مواد مل گیا اور گلے پھاڑتے تجزیہ کار رپورٹر اور اینکرز عجیب و غریب تجزیے اور متاثرہ بچوں کے خاندانوں سے احمقانہ اور گرے ہوے سوالات کرتے نظر آے.بچوں سے یہ سوال کرنا کہ آپ بتاہیں کیا ہوا اسوقت آپ کیا محسوس کر رہے تھے۔ ان کے والدین سے پوچھنا کہ آپ کے کیا تاثرات ہیں۔ شاید ان سے زیادہ گرے ہوے سوالات اور جزبات کی تجارت ممکن ہی نہیں اور یہ عکاسی ہے ہمارے دانشور میڈیا کے اخلاقی دیوالیہ پن کی.اگر خدانخواستہ کسی اینکر صحافی یا تجزیہ کار کے اپنے بچوں بھائی یا بہن کے ساتھ ایسا اندوہ ناک واقع پیش آئے تو کیا اس سے بھی ایسے سوالات کریں گے اور کیا اسی طریقے سے اپنی فیملیز کے ماتم کو بریکنگ نیوز بنا کر بیچیں گے؟
میڈیا پر خبر چلتے ہی انتظامیہ نے بھی روایتی بے حسی کا مظاہرہ کیا اور مذمتی بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ پنجاب کے وزیر قانون سے لیکر وزیر اعلیٰ تک اور شہر کے ڈی پی او سے لیکر ایس ایچ او تک سب کو نوٹس لینا بھی یاد آ گیا اور سب کو اچانک احساس ہو گیا کہ یہ تو بہت المناک واقعہ ہے لہذا ان ملزموں کو جو ابھی بھی دندناتے پھر رہیں ہیں انہیں کڑی سزائیں دی جائیں گی.
جہاں بے حسی اور بے رحمی کی ایک اور مثال انتظامیہ نے قائم کی وہاں سیاسی قاہدین بھی اپنی اپنی دکان چمکانے کیلیے میڈیا پر آئے اور اس سانحے کو کمال عیاری سے سیاسی معاملہ بنا دیا اور رہی سہی کثر جذباتی تقلید کرنے والے سیاسی کارکنان اور سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا ونگز نے پوری کر دی.انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار انتہائی آرام سے ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے ملکی اور بین القوامی میڈیا میں اپنا اپنا چورن بیچنا شروع ہو گئے تا کہ اپنی اپنی فلاحی تنظیموں کیلیے مزید چندہ اکٹھا کر سکیں.
رہی بات عام لوگوں کی تو ٹی وی پر کچھ دیر کو خبر دیکھی واقعے پر گہرے رنج کا اظہار کیا سوشل میڈیا پر جزباتی سے سٹیٹس اپ لوڈ کیے اور پھر اپنے اپنے بچوں کے ساتھ حسب معمول سیر پر نکل گئے. نجانے کیوں بے حسی کی چادر تانے ہم سب کو اب کسی بھی جرم یا سانحے کی تکلیف ہی نہیں ہوتی .پتہ نہیں اس معاشرے میں دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت ناپید کیوں ہو گئی ہے.
ایک بچہ جس کے ساتھ یہ گھناؤنا فعل ہوتا ہے ساری زندگی وہ اعتماد نہیں حاصل کرنے پاتا. معاشرے کا زمہ دار شہری نہیں بننے پاتا اور جو عمر ہنسنے کھیلنے کی ہوتی ہے وہ عمر خوف اور پریشانی میں بتا دیتا ہے. ہر روز اسے معاشرتی رویوں کی وجہ سے سینکڑوں دفعہ مرنا پڑتا ہے. اور اس سانحے میں سینکڑوں معصوم پھول مسلے گئے ہیں جنہیں ہم سب اپنے اپنے رویوں سے کچلے ہی جا رہے ہی.ان بچوں کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلنے والے افراد تو خیر انسانیت کے مجرم ہیں اور انہیں سزا مل بھی جائے گی لیکن وہ تمام لوگ جو 50 روپے کی سی ڈیز خرید کر یا انٹرنیٹ پر پورن سایٹس پر جا کر اپنے نامکمل جنسی ارمانوں کی فرسٹریشن ان بچوں کی فلمیں دیکھ کر پوری کرتے رہے وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں انہیں کوئی عدالت سزا دے سکتی ہے کیا.
وزیر اعلی پنجاب نے جہاں بااثر افراد کے خلاف کاروآئی کا بلا امتیاز اعلان کیا ہے وہیں ان افراد کو ڈھونڈ کر بھی سزا دیں گے جو یہ سب کچھ پیسوں کے عوض ڈی وی ڈیز خرید کر دیکھتے رہے.اور آپ اور میرے جیسے لوگ جو ہمیشہ سسٹم کو برا بھلا کہی کر دل کی بھڑاس اور فرسٹریشن نکالتے پھرتے ہیں ہمیں بھی زرا اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے یہ واقعہ تو خیر منظر عام پر آ گیا اور میڈیا کوریج کے باعث شاید زمہ داروں کو سزا بھی ہو جائے لیکن ایسے واقعات تو ہر روز پاکستان کے طول و عرض میں رونما ہوتے ہیں اور ہم بس سر جھکا کر اپنی اپنی زندگی کی فکر میں جیے جاتے ہیں اور مرغیوں کی طرح آنکھیں بند کر کے سوچتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی ہمارے بچوں کے ساتھ نہیں ہو گا.
یہ واقع اس نظام کی نہیں بلکہ ہم سب پاکستان میں رہنے اور بسنے والوں کی اجتماعی ناکامی ہے.ہم لوگ کارپٹ کے نیچے گند جمع کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو جھوٹے دلاسے دیتے رہتے ہیں کہ سب درست ہے.اس زیادتی کا شکار بچے ہماری منفی ذہنیت اور جنسی ناآسودگی فطری جبلتوں کو زبرستی کچلنے کا منہ بولتا ثبوت ہے اور اس حقیقت کا اعلان بھی کہ معاشرے پر مصنوعی قدغنیں لگانے سے ایک بدبودار فضاء پیدا ہو جاتی ہے اور بدبو میں پلنے والے کبھی بھی خوشبو کو محسوس نہیں کر پاتے .
ان بچوں کے خاندان جو انصاف کیلیے در بدر بھٹک رہے ہیں اور جنہیں ابھی تک اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر ٹھیک طرح سے سوگ کرنے کا وقت بھی نہیں ملا ان کی یہ حالت زار ہم لوگوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے اور یہ سب چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ اس ملک کو توہین انسانیت کے قانون کی اشد ضرورت ہے.اس معاشرے کو انسانیت سے پیار اور زندگی کے مفہوم جاننے کی ضرورت ہے. ایک نئے سماجی کنٹریکٹ کی ضرورت ہے.آپ جانتے ہیں اگر کوئی جانور بھی کہیں زخمی ہوجائے یا مر جائے تو اسکے ہم قبیلہ خوراک کی تلاش چھوڑ کر بین کرتے ہیں.اکٹھے ہوتے ہیں.لیکن ہم تو کسی بھی سانحہ پر ٹھیک سے افسوس بھی نہیں کرتے. فوراً ذات پات فرقوں تعصب اور سیاسی وابستگیوں کی چادر اوڑھ کر ہر المیے کو ایک انا کی جنگ بنانے کے بعد اگلے سانحے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں.
اس المیے کا شکار یہ بچے زندہ رہ جانے والی چار سو لاشیں ہیں اور یہ واقع آرمی پبلک سکول کے شہید بچوں کی طرح اتنا ہی ہولناک اور سفاک ہے. اور ایسے لاتعداد واقعات جو کبھی رپورٹ نہیں ہونے پاتے وہ بھی مسلسل ہوتے رہیں گے جبتک ہمارے پالیسی ساز کارپٹ کے نیچے گند جمع کرنے کا کام نہیں چھوڑیں گے.اور کتنے بچے اس جنسی تسکین کے بھینٹ چڑھانے کے بعد ہم سب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ ہمیں سکولوں میں ابتدا ہی سے سیکس ایجوکیشن دینے کی سخت ضرورت ہے ہمیں بنیادی سوچ کو تبدیل کرنا ہے بنیادی جبلتوں کے اظہار کیلیے جگہ دینی ہو گی.اور اس واقعے میں شامل ہر کردار کو نشان عبرت بنانا ہو گا. اپنے سماجی رویوں میں تبدیلی لانی ہو گی. یہ معصوم بچے آرمی پبلک سکول کے بچوں کی طرح ہم سب کے شانوں پر ایک ناقابل برداشت بوجھ ہیں اگر آپ اس بوجھ سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور آئندہ کے لیے اپنے بچوں کی حفاظت کیلیے ایسے دلخراش واقعات روکنا چاہتے ہیں تو اپنی اپنی مصروف زندگی میں سے تھوڑا سا وقت نکالیے ان بچوں اور انکے خاندانوں سے ملنے جاہیے انہیں اپنے بچوں میں گھلنے ملنے دیجیے ان کے والدین سے کہیے کہ آپ انکے ساتھ ہیں. یقین کیجیے یہ تمام لوگ شاید اس عمل سے کچھ ہمت پکڑنے پاہیں گے اور دوبارہ خود اعتمادی سے زندگی گزارنے پاہیں گے. آپ کو ایسے واقعات کو برداشت کرنے سے انکار کرنا ہو گا اور ایسے حیوانوں اور جنسی درندوں کی جانب ‘زیرو ٹولیرنس’ دکھانی ہو گی. اور اگر آپ اب بھی یہ نہیں کر سکتے تو بس کیجیے نظام کو کوسنا اور بند کیجیے طنز و تنقید کے نشتر برسانا.معاشرے باہمی اور سماجی رویوں سے زندہ بھی رہتے ہیں اور آگےبھی بڑھتے ہیں اگر اتنے بڑے واقعے پر بھی محض باتیں بنا کر پھر اپنی اپنی آساہشوں کے حصول کیلیے کھو جانا ہے تو پھر کل کو تیار رہیے گا اس طرح کا واقعہ آپ کے اور میرے بچوں کے ساتھ بھی ہوجائے گا اور پھر ہم بھی معاشرتی بے حسی کا ماتم مناتے نظر آہیں گے. خود فریبی کے چنگل دے نکلیے اس سانحہ قصور کے مجرم ہم سب ہیں.